اردو ادب میں تانیثیت

اردو ادب میں تانیثیت / تانیثیت کی بنیاد

اردو ادب میں تانیثیت / نثر اور نظم می

اردو ادب میں تانیثیت

اردو ادب میں تانیثیت : اہم ادبی نظریے کے طور پر عالمی ادب میں تانیثیت ای روشناس ہوا ہے۔ جس کے سروکار مختلف سطحوں پر ہیں۔ خواتین کے تشخص اور گوناگوں مسائل رہے، دراصل تانیثیت ان افکار و نظریات کا مجموعی اظہار ہے جو خواتین کو عزت و وقار کے ساتھ ان کے حقوق کو یقینی بناتا ہو۔

تانیثیت کی بنیاد

تانیثیت، انگلینڈ اور امریکہ ہی نہیں بلکہ ایشیا و افریقہ کے رانس میں بھی اس طریقہ کار میں گوت اگوں مسائل کے وجود میں آنے کا بنیادی سبب مرد اساس معاشرے کے خلاف بیزاری اور احتجاج ہے۔ وہ معاشرہ جس نے اپنی برتری اور اقتدار کو قائم رکھنے کے لیے جابرانہ حربے استعمال کیے۔

مغرب میں تانیثیت

دو سو سال قبل مغرب میں اٹھنے والے اس ادبی نظریے نے جلد ہی ایک مربوط تحریری شکل اختیار کر لی۔ اس نے مراعات کے بجائے احتجاج کو ترجیح دی اور خواتین کے حقوق کے حصول پر اصرار کیا۔ مرد کی برتری کے خلاف اس نظریے نے بیسویں صدی میں اردو ادب پر بھی اثر ڈالنا شروع کیا۔

اردو ادب میں تانیثیت

مختلف ادبی تحریکات کی طرح تانیثیت نے اردو ادب میں بھی نثر و نظم دونوں سطحوں پر اپنی منفرد شناخت قائم کر لی ہے۔ اردو ادب میں تانیثیت اب اس مرحلے میں داخل ہو چکی ہے کہ اسے نظر انداز کرنا ممکن نہیں۔

خواتین قلم کاروں کا کردار

خواتین قلم کاروں نے مختلف تخلیقات کے ذریعے اپنی شناخت قائم کی۔ عصمت چغتائی سے لے کر پروین شاکر تک، ان خواتین نے معاشرے کو بیدار کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔

شاعری میں خواتین کا لب و لہجہ

“اسمین حمید کہتی ہیں:
اس کے مقابل آئی خواب تو دنیا کا بھید کھلا
مجھ کو اندازہ نہ تھا اپنی انفرادیت کا

پروین شاکر کہتی ہیں:
اس کی مٹھی میں بہت روز رہا میرا وجود
میرے ساحر سے کہو اب مجھے آزاد کرے

مرد اساس معاشرے کی حقیقت

مرد اساس معاشرے کی فطرت سے واقف عورت سوچنے پر مجبور ہوتی ہے کہ اگر حیلوں سے، بہانوں سے آزاد نہیں کیا گیا تو نہ جانے کب یہ نرمی سخت گیری میں تبدیل ہو جائے گی۔

پروین شاکر لکھتی ہیں:
میں سچ کہوں گی مگر پھر بھی ہار جاؤں گی
وہ جھوٹ بولے گا اور لاجواب کر دے گا

اہم شعرا اور ان کے موضوعات

1857 کے بعد تعلیم نسواں کے فروغ پر زور دیا گیا۔ حالی اور اکبر نے عورتوں کی تعلیم و تربیت پر توجہ دی۔

اقبال نے کہا:
“وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ”

بیسویں صدی میں خواتین نے نظم و نثر میں اہم کردار ادا کیا۔

فہمیدہ ریاض اور کشور ناہید

فہمیدہ ریاض کی شاعری میں عورت کے مسائل اور خواب نمایاں ہیں۔ وہ بے باک انداز میں معاشرتی جبر کے خلاف لکھتی ہیں۔

کشور ناہید لکھتی ہیں:
میرے منہ پر طمانچہ مار کر
تمہاری انگلیوں کے نشان
پھولی ہوئی روٹی کی طرح

نتیجہ

اردو ادب میں تانیثیت نے خواتین کو اظہار کے نئے مواقع فراہم کیے۔ ان کی تخلیقات نے معاشرتی جبر اور استحصال کو واضح طور پر پیش کیا۔ عورت نے اپنے قلم کے ذریعے ثابت کیا کہ وہ کمزور نہیں بلکہ ایک مضبوط اور خودمختار ہستی ہے۔

Click Here For PDF

اردو ادب میں تانیثیت

See More

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Proudly powered by WordPress | Theme : News Elementor by BlazeThemes