اس یگانہ کی شاعری کی خصوصیات

اس یگانہ کی شاعری کی خصوصیات

اس یگانہ کی شاعری کی خصوصیات

ندرت ادا

اس یگانہ کی شاعری کی خصوصیات : کہا جاتا ہے کہ شاعری میں اگر ندرت ادا کی خوبی نہ ہو تو وہ شاعری کیا خاک شاعری ہوگی۔ اس یگانہ کی یہ خوبی “ندرت ادا” کمال کی خوبی ہے۔ اس کا کمال یہ ہے کہ وہ سیدھی سادھی اور معمولی باتوں کو انتہائی منفرد انداز میں بیان کرتے ہیں جس سے شعر میں حلاوت و لطافت پیدا ہو جاتی ہے۔ وہ اپنے انوکھے طرز میں پرانی باتیں کہہ کر نئے اسلوب سے شعر کو چار چاند لگا دیتے ہیں۔

مثلاً:

“پیدا نہ ہو زمیں سے نیا آسماں کوئی
دل ٹا کان ہے آپ کی رفتار دیکھ کر
جاں ایماں ہے ابھی وہ آنکھ شرمائی ہوئی
کیفیت میں ڈوب کر کیا جانے کیا ہو جائے گی”

سوز و گداز

فطری طور پر سوز و گداز ان کی طبیعت میں نمایاں تھا۔ شاعری چونکہ حساس مزاج کا مظہر ہوتی ہے، اس لئے ان کا دل سوز و گداز سے بھرپور تھا۔ ان کا کلام افسردہ اور غمگین طبیعت کو پرسکون کرتا ہے اور قاری کو اپنے سحر میں جکڑ لیتا ہے۔

مثال کے طور پر:

“آنکھ اٹھا کر نہ کسی سمت قفس سے دیکھا
موسم گل کی خبر ٹ س رہے کانوں سے
کہاں پر ارسائی ی کی ہے پروانہ کی قسمت نے
پڑے ہیں منزل فانوس میں بے ال ی و پر ہو کر”

فلسفہ و حکمت کی آمیزش

ازل سے انسان کائنات کے اسرار و رموز جاننے کا خواہاں ہے، اور اسی تجسس کے تحت اس یگانہ نے بھی فلسفہ و حکمت کے رموز کو شاعری میں پیش کیا۔ ان کے کلام میں کائنات کے اسرار و رموز اور حکمت کی جھلک دکھائی دیتی ہے۔

“سمجھتا ہوں مگر دنیا کو
ٹا سمجھای نہیں
ٹا آی دا ج معلوم
اس آغاز کا انجام کیا ہو گا
چھیڑا ہے ساز ہستی مبتلاۓ بے خبر کو”

طنز و جھنجلاہٹ

اس یگانہ کے کلام میں طنز اور جھنجلاہٹ بھی پائی جاتی ہے۔ ان کے اشعار میں شوخی کے ساتھ طنزیہ عنصر بھی ہے، جو نہایت منفرد انداز میں جھلکتا ہے۔

مثلاً:

“جیسے دوزخ کی ہوا کھا کے ابھی ٹا آی ہے
کس قدر واعظ مکار ٹا ڈرای ہے مجھے
موت مانگی تھی دائی ج تو نہیں مانگی تھی
لے دعا کر چکے اب زک ت دعا کرتے ہیں”

جبر و قدر

جبر و قدر کے مسئلے پر اس یگانہ نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ ان کے مطابق انسان فطرت کے ہاتھوں مجبور ہے، اور ان کا تصور جبر و قدر کے تحت انسان کے عمل کو محدود تصور کرتا ہے۔

“فطرت مجبور کو اپنے اہوں گ میں ہے شک وا رہے گا کب تلک
توبہ کا در میرے لئے صلح جوئی نے گنہگار مجھے ٹا ٹھہرای
ج زم ٹ ی ای جو کیا چاہو تو ، مشکل ہو جاۓ”

اخلاق کی تعلیم

اس یگانہ نے اخلاقیات کا درس بھی اپنی شاعری کے ذریعے دیا۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اگر انسان کا اخلاق سنور جائے تو معاشرہ امن کا گہوارہ بن سکتا ہے۔

“خود اپنے خاک و خوں میں لوٹ کر آلودہ دینا پڑا ہے
اب زھے گ میں گور کے آلودہ ٹز ت ہو کر”

رشک

اس یگانہ کے کلام میں رشک کا عنصر بھی پایا جاتا ہے، اگرچہ وہ غالب کے مخالف تھے، لیکن ان کے ہاں رشک غالب کی روشنی نظر آتی ہے۔

مثلاً:

“لاش کمبخت کی کعبہ میں کوئی پکھوا دے
کوچہ ار ی میں کیوں ڈھیر ہو بیگانے کا
ارے ہ قتل کا وعدہ ہے غیر کے ہاتھوں
عجیب شرط پہ ٹھہرا معاملہ دل کا”

خودداری و تنگ مزاجی

ان کے کلام میں خودداری، تنگ مزاجی اور عالی حوصلگی بھی پائی جاتی ہے۔ ان کا انداز بسا اوقات گستاخانہ ہوتا ہے، جس سے ان کی انا اور خوداری کا اندازہ ہوتا ہے۔

“ٹ س تیرا سوا ز کاف ، ز آج اس کا مطلب کیا
سر پھرا دے ان ان کا ایسا خبط ٹ مذہ کیا
نہ داؤں ج کا نہ دا ج کا ڈر
اسے عیب جانے ا ی ہنر وہی ات ی آئی
ان زی پر جو نظر زھ ج کے کھڑی رہی
وہ ہم سے نہیں ملتے ہم ان سے نہیں ملتے”

زبان کی بابت خاص محاورات کا استعمال

اس یگانہ نے محاورات کو شاعری کا حصہ بنا کر منفرد طرز دیا ہے، جس سے ان کی شاعری میں زندگی کی کسمپرسی اور تنہائی کا احساس جھلکتا ہے۔

“خواب ٹا آی تو کیا ٹا آی
صدائے ازگشت ی آئی دہن سے

آہ نکلی مبتلائے بے خبر ہو کر”

Click Here For PDf

یاس یگانہ کی شاعری کی خصوصیات

See More

اس یگانہ کی شاعری کی خصوصیات

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Proudly powered by WordPress | Theme : News Elementor by BlazeThemes