ناول خدا کی بستی

ناول خدا کی بستی / تعارف / موضوع

ناول خدا کی بستی / تعارف / موضوع

ناول خدا کی بستی شوکت صدیقی کی فنی صنف ہے۔ اس ناول میں تقسیم ہندوستان کے بعد پاکستان میں تشکیل پانے والی سوسائٹی، جو نیم جاگیردارانہ اور نیم سرمایہ دارانہ معاشرت کی عکاس ہے، کو بیان کیا گیا ہے۔ شوکت صدیقی نے اس معاشرتی سوسائٹی کے حقیقی حقائق کو نہایت دلیری اور راستی کے ساتھ بیان کیا ہے۔

مصنف کا تعارف

20 مارچ 1923ء کو شوکت صدیقی لکھنؤ میں پیدا ہوئے۔ آپ کا اصل نام شوکت حسین صدیقی تھا، مگر آپ شوکت صدیقی کے نام سے مشہور ہوئے۔ ابتدائی تعلیم گھر پر مولوی صاحب سے حاصل کی اور قرآن کا ناظرہ بھی کیا۔ 1930ء میں گورنمنٹ جوبلی ہائی اسکول میں داخلہ لیا، جہاں آپ کو حامد اللہ افسر جیسے استاد میسر آئے۔ بعدازاں آپ نے کانپور امیر الدولہ اسلامیہ ہائی اسکول سے 1938ء میں تعلیم مکمل کی، جہاں علی عباس حسینی اور عبد الوحید ریشی جیسے اساتذہ سے تعلیم حاصل کی۔ بعد ازاں لکھنؤ یونیورسٹی سے ایم۔اے (سیاسیات) کیا۔

ادبی زندگی کا آغاز

اگرچہ شوکت صدیقی کے خاندان میں کوئی ادبی شخصیت نہیں تھی، مگر ان کے والد مولوی الطاف حسین کو علم و ادب کا بہت شغف تھا، جس کے باعث شوکت صدیقی نے نو عمری میں سر سید، حالی، شبلی، رتن ناتھ سرشار، عبد الحلیم شرر، مولوی نذیر احمد، پریم چند اور اس عہد کے دوسرے اہل قلم سے واقفیت حاصل کی۔ انہوں نے ادبی زندگی کا آغاز 1957ء میں کیا اور اپنا پہلا ناول خدا کی بستی لکھا، جس پر انہیں آدم جی انعام بھی ملا۔

موضوع اور تعارف

ناول خدا کی بستی کے ذریعے شوکت صدیقی نے پاکستانی معاشرتی سوسائٹی کے اندرونی حقائق کو نہایت دلیری اور حقیقت پسندی کے ساتھ پیش کیا ہے، جو قاری کے لیے اپنی طرف متوجہ رہنے کا باعث بنتے ہیں۔

ناول خدا کی بستی کا تعارف

یہ ناول خدا کی بستی 1958ء میں شائع ہوا۔ 11 ابواب پر مشتمل یہ ناول 654 صفحات پر محیط ہے اور کافی ضخیم شمار کیا جاتا ہے۔ یہ اردو ادب کا ایک شاہکار ناول ہے، جس پر مصنف شوکت صدیقی کو آدم جی ایوارڈ بھی ملا۔ اس ناول کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے اور پاکستان ٹی وی پر اس کی ڈرامائی تشکیل بھی پیش کی جاچکی ہے۔ اردو ادب کی تاریخ میں یہ پہلا ناول ہے جس نے تقسیمِ ہند کے بعد پاکستانی شہری معاشرے کے حقیقی حقائق کو جرات اور سچائی کے ساتھ پیش کیا ہے۔

ناول کا موضوع

یہ ناول اس وقت لکھا گیا جب پاکستان کو معرضِ وجود میں آئے ہوئے تقریباً دس سال بیت چکے تھے۔ اس وقت یہ حقیقت سامنے آئی کہ جس مقصد کے لیے پاکستان بنایا گیا تھا، وہ پوری طرح پورا نہ ہو سکا۔ قوم کی تمنائیں اور آرزوئیں پوری ہوتی نظر نہیں آئیں، اور ایک ایسا سرمایہ دارانہ معاشرہ وجود میں آگیا جس میں مفاد پرستی اور مادہ پرستی نے جنم لیا۔ اس معاشرتی صورت حال نے کرب، نا امیدی، افسردگی، بھوک، افلاس، اور نفسیاتی الجھنوں کو جنم دیا، جس نے ادب کو بھی متاثر کیا۔ شوکت صدیقی بھی ان ادیبوں میں سے ایک ہیں جنہوں نے اس معاشرتی صورت حال کو اپنے ادب میں جگہ دی۔

سیاسی و سماجی صورتحال کا اظہار

خدا کی بستی ایک ایسا ناول ہے جو سیاسی اور سماجی صورتحال کا بے ساختہ اظہار کرتا ہے۔ شوکت صدیقی نے اس دور کی سیاسی کشمکش، سرمایہ دارانہ نظام، معاشی و اقتصادی بحران، جبر و استحصال، عدم انصاف، اور تہذیبی و ثقافتی اقدار کو بے نقاب کرنے کی کوشش کی ہے۔ ڈاکٹر انور سدید (ہند و پاکستان میں اردو ناول) میں رقم طراز ہیں کہ خدا کی بستی میں پاکستانی معاشرت خصوصاً شہری ماحول کی زندگی اور اس کی سچائیوں کو موضوع بنایا گیا ہے۔ یہ ناول اس دور کی عکاسی کرتا ہے جب نیم جاگیردارانہ اور نیم سرمایہ دارانہ نظام کا طبقاتی کردار اور کشمکش موجود تھی، لیکن پاکستانی شہری زندگی کی معاشرتی، تہذیبی، اور اقتصادی اقدار ابھی تک انتشار اور بحران کا شکار تھیں۔ اس ناول میں زندگی کے ان مسائل کا ذکر ہے جن سے پاکستان اور اس کا معاشرہ دوچار ہے۔

بنیادی موضوع

اس ناول کا بنیادی موضوع غربت، افلاس، اور بیروزگاری ہے۔

ناول خدا کی بستی کا موضوع

 

See More

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Proudly powered by WordPress | Theme : News Elementor by BlazeThemes