ناول بہاؤ کا فنی تجزیہ/ منظر نگاری/ مکالمے / کرداروں کی عکاسی
ناول بہاؤ کا فنی تجزیہ : بہاؤ پاکستان سے شائع ہونے والا اردو ناول ہے جسے اردو کے مشہور و معروف مصنف مستنصر حسین تارڑ نے تحریر کیا ہے۔ بہاؤ میں ان کا فن اپنے اوج پر نظر آتا ہے۔ اس ناول کا موضوع قدیم تہذیب سندھ کی تہذیب ہے۔ اس ناول میں تارڑ نے تخیل کے زور پر ایک نئی روح پھونک دی ہے۔ بہاؤ میں اس دریا کا بیان ہے جس کی معدوم اور خشک ہو جانے کا ذکر ہے، جہاں تہذیب اپنے انجام کو پہنچتی ہے۔
مستنصر حسین تارڑ ایک سفرنامہ نگار اور ٹیلی ویژن کے میزبان کی حیثیت سے شہرت رکھتے ہیں، مگر بہاؤ ان کا وہ ناول ہے جسے اردو ناول نگاری میں خصوصی مقام حاصل ہے۔ اشاعت کے بعد سے آج تک لوگ اس ناول کو اردو ادب میں ایک بلند مقام دیتے ہیں۔ ایک انٹرویو میں مستنصر حسین تارڑ نے بتایا کہ بہاؤ لکھنے کے لئے انہوں نے بارہ سال تحقیق کی تھی۔
بانو قدسیہ نے بہاؤ پڑھنے کے بعد کہا تھا کہ اس ناول کے بعد مستنصر حسین تارڑ کو کچھ بھی لکھنے کی ضرورت نہیں ہے۔ یہی ایک ناول انہیں زندہ و جاوید رکھنے کے لئے کافی ہے۔
ناول بہاؤ کا فنی تجزیہ
پلاٹ
طرزِ نگارش
کردار نگاری
مکالمہ نگاری
منظر نگاری
جزئیات نگاری
پلاٹ
ناول بہاؤ میں بستی کے لوگوں کی کہانی بیان ہوئی ہے جس میں ہر شخص کا الگ الگ کام ہے اور ہر کہانی خوبصورتی کے ساتھ ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہے۔ مصنف نے بہت خوبصورتی سے کہانی کو اس طرح جوڑا ہے کہ جب قاری پہلے پہل اس کو پڑھنا شروع کرتا ہے تو اسے بے زاری سی محسوس ہوتی ہے، لیکن جیسے جیسے وہ آگے بڑھتا ہے، وہ خود کو ایک الگ دنیا میں محسوس کرتا ہے۔ یہی اس ناول کی سب سے بڑی خصوصیت ہے۔
طرزِ نگارش و زبان اور فنی جائزہ
ناول بہاؤ کا تعارف
ناول “بہاؤ” کی تحریر و اسلوب منفرد ہے۔ اس کی زبان انتہائی منفرد ہے جس میں سندھی، سنسکرت، اور سرائیکی زبان کے الفاظ جا بجا لاتے ہیں، جس سے ناول کا طرزِ بیان اور زبان کی چاشنی قصے کو چار چاند لگا دیتی ہے۔ زبان کی شستگی، روانی، حسن، محاورات، ضرب الامثال اور تشبیہات و استعارات کہانی میں رنگ بھر دیتے ہیں۔
چاہے کہانی جتنی بھی خوبصورت اور مفکرانہ ہو، اگر بیان کے لیے خوبصورت الفاظ کو منطقی ترتیب سے نہ باندھا جائے تو کہانی میں کہانی پن نہیں رہتا اور اس کا اثر کمزور نظر آتا ہے۔ تارڑ لفظوں کے کھیل کے ماہر کھلاڑی ہیں اور لفظوں کو جوڑنے توڑنے کے عمل سے خوب واقف ہیں جو ان کے ناول “بہاؤ” کے اسلوب سے بخوبی ظاہر ہوتا ہے۔ اس ناول کی زبان اسی تہذیب کے مطابق استعمال کی گئی ہے جس تہذیب کو پیش کیا جارہا ہے۔ زبان کا لہجہ، محاورات، ضرب الامثال وغیرہ تمام چیزیں دیکھی جاتی ہیں۔
اسلوب کی چند مثالیں
“میں نے تمہیں بتانا ہے کہ میں اس زمین کا حصہ ہوں۔ میری رنگت ہولے ہولے بدل جائے گی اور میں تم جیسا ہو جاؤں گا۔”
“رات کے پچھلے پہر ہوا اُسے آئی تھی اور سندھو کے کنارے پر سے آتی ہوا میں رلاپ بہت تھا۔ اور اس رلاپ کی کاٹ سے وہ کروٹیں بدلتے تھے اور سوتے نہ تھے۔”
کردار نگاری
کردار نگاری بھی ناول کا ایک اہم جزو ہے۔ کرداروں کے ذریعے کہانی چلتی ہے۔ جس ناول کے کردار جتنے متحرک، جان دار اور کہانی کے مطابق ہوں گے وہ ناول اتنا پرکشش اور معیاری ہوگا۔ کردار کہانی میں جان ڈالتے ہیں۔
ناول “بہاؤ” کا مرکزی اور مضبوط کردار “روشنا” ہے۔ اس کے ساتھ کچھ ذیلی کردار بھی ہیں جن میں چیوا، ماتی، سمرو، ورچن، ما من، ماسا، ی، گجرو، دھروا، جبوں، کھی، ا، کومی، ماتی، مندرا، پک ل، بون ڈروگا اور پورن امل شامل ہیں۔ ہر کردار اپنی خاص پہچان اور شناخت رکھتا ہے۔
ناول کا مرکزی کردار روشنہ ایک دانشور کا کردار ادا کرتی ہے، تو درجن کے اندر ایک سیاح موجود ہے جسے ایک جگہ سکون سے رہنا نہیں آتا، پنکی ایک ظروف ساز ہے، اور سمرو ایک کسان ہے۔ تارڑ نے ناول کے کرداروں کو اس عہد کے مطابق بنا کر پیش کیا ہے جو ان کے نام، پیشے، مکالمے اور طرزِ زندگی سے ظاہر ہوتا ہے۔ تارڑ نے آج کے کرداروں کو پانچ ہزار سال قبل کے کرداروں کے طور پر پیش کیا ہے۔
مکالمہ نگاری
کرداروں سے جڑی چیز مکالمہ نگاری بھی ناول کا ایک اہم جزو ہے، کیونکہ ناول زندگی کی ایک چلتی پھرتی تصویر ہے جس میں زندگی اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ نمایاں ہوتی ہے۔ زندگی انسان کے دم سے ہے اور انسان مکالمے کے بغیر نہیں رہ سکتا۔
انسان ایک معاشرتی حیوان ہے اور معاشرے میں زندہ رہنے کے لیے اسے مختلف لوگوں سے واسطہ پڑے گا۔ “بہاؤ” ناول بھی ایک تہذیب کا آئینہ دار ہے جس میں پوری تہذیب دکھائی گئی ہے اور جس میں جیتے جاگتے لوگ موجود ہیں۔ وہ آپس میں مکالمہ بھی کرتے ہیں۔
تارڑ نے کرداروں کے حساب سے ان سے مکالمے کروائے ہیں۔ ورچون سیاح ہے تو اس کی گفتگو سیاحت کے حوالے سے ہوگی۔ روشنہ ایک خاتون خانہ ہونے کے ساتھ ساتھ عقل مندی کی علامت ہے، تو اس کی گفتگو میں یہی رنگ نمایاں ہوگا۔ روشنہ ناول کا مرکزی کردار ہے، تو زیادہ تر گفتگو میں اس کو اہمیت دی گئی ہے اور تمام کرداروں پر اس کا پلڑا بھاری نظر آتا ہے۔ ان تمام خوبیوں کے ساتھ ساتھ روشنہ کو ایک خوبصورت لڑکی کے کردار کے طور پر پیش کیا گیا ہے جس سے کئی کردار اپنی خواہش کا اظہار کرتے ہیں، جس کا انداز عمر کی گفتگو میں نظر آتا ہے۔
ہم دا ل کو ایک کسان اور حر کے مزاج کا شخص دیکھتے ہیں، اس کی گفتگو کھیتی باڑی سے متعلق ہوتی ہے اور وہ روشنہ سے چھیڑ چھاڑ پر مبنی باتیں کرتا ہے۔
منظر نگاری
بہاؤ کی منظر نگاری اور تصویر کشی اتنی عمدہ ہے کہ آغاز ہی سے قاری کو اپنے ساتھ محو کر لیتی ہے اور قاری اپنے آپ کو ایک قدیم بستی جو آج سے تقریباً پانچ ہزار سال قبل ختم ہوگئی تھی کا مکیں بن کر خود کو اس بستی کے گلی کوچوں، کھیت، اندرونی جنگل اور ریگستان میں گھومتا محسوس کرتا ہے۔
تارڑ صاحب نے جہاں اس عہد کی عادات، رسم و رواج، اور طرزِ زندگی کی تصویر کشی کی ہے، ساتھ ہی اس دور کے لوگوں کے رہن سہن کے طریقوں کو بھی اس ڈھنگ اور سلیقے سے پیش کیا ہے کہ ان میں اجنبیت کی بجائے اپنائیت نظر آتی ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے یہ منظر آنکھوں کے سامنے موجود ہیں اور اپنے کام میں مصروف ہیں۔ ایسی اپنائیت پیدا کی گئی ہے کہ یوں لگتا ہے کہ ان کا طرزِ زندگی ہی اپنا جیون ہے۔ ان کے آداب، ان کے طور طریقے ہمارے ہیں۔ دیہات کے اندر آج بھی وہی رسمیں موجود ہیں جو آج سے پانچ ہزار سال قبل کی دیہی بستی میں موجود تھیں۔
رسم و رواج کی منظر نگاری اور تصویر کشی کے حوالے سے ایک مثال دیکھیں۔ برتن پر ظروف نگاری کا رواج آج سے پانچ ہزار سال قبل موجود تھا اور آج بھی موجود ہے۔ اس حوالے سے مثال ملاحظہ ہو:
سمرو نے پتھر کے ایک ٹکڑے کو آگ میں ڈبونے کے بعد منکے کے ایک کونے میں ایک شکل بنادی۔ اب جو کوئی بھی دیکھے گا وہ جان جائے گا کہ یہ سمرو نے بنایا ہے اور اسی نے یہ منکا بنایا ہے۔
جزیات نگاری
تصویر کشی و منظر نگاری کے ساتھ ساتھ جزیات کی نگاری بھی اس ناول کی اہم خوبی ہے۔ مصنف نے جب بھی کسی منظر کا نقشہ بنانا ہے تو اس میں کسی چیز کو چھوڑا نہیں بلکہ اس عمل کو مکمل دکھاتے ہوئے تمام اجزاء کو بطور احسن پیش کیا ہے تاکہ وہ منظر یوں لگے جیسے آنکھوں کے سامنے وقوع پذیر ہوا ہے یا ہو رہا ہے۔ روشنی کے حوالے سے بیان کرتے ہوئے جس قدر جزیات کی نگاری کا خیال رکھا گیا ہے، اس کی ایک بہترین مثال ملاحظہ ہو۔
تارڑ صاحب نے اروشنی کا حلیہ کچھ یوں بیان کیا ہے کہ:
اروشنی “اپنی نسل کا خاص قد و قامت لیے ہوئے تھی۔ ہلکا سیاہی مائل بدن، گہرے الے اور بھورے بال جو ستھرے گھونسلے کی طرح سر پر رکھے ہوئے تھے۔ بھنویں اوپر کو اٹھی ہوئیں، ناک چوڑی مگر اونچی، جبڑا ذرا آگے کو نکلا ہوا جیسے بھوکے جانور کا۔ قد ایسا کہ کنک کی فصل میں چلتے ہوئے پہلی نظر پر دکھائی نہ دے اور سروٹوں میں گم ہو جائے۔ موٹی اور بھرے بھرے کولہے جیسے پھن پھیلائے ہوئے سانپ کا سر۔ اروشنی کا حلیہ بیان کرتے ہوئے اس قدر جزیات کی نگاری سے کام لیا گیا ہے کہ اروشنی سامنے کھڑی دکھائی دے رہی ہے۔”
جس قدر مصنف نے پورے ناول میں منظر نگاری و جزیات کی نگاری سے کام لیا ہے، وہ بظاہر اکتاہٹ کا باعث بن سکتا تھا، مگر مصنف نے افسانوی اسلوب کی مٹھاس سے اس قدر سحر پیدا کیا ہے کہ یہ اکتاہٹ کی بجائے دلچسپی کا سماں بندھ گیا ہے۔