Table of Contents
Toggle/ کردار نگاری / ناول آنگن کا فنی تجزیہ / مکالمہ نگاری / منظرنگاری
تعارف
ناول آنگن کا فنی تجزیہ : آنگن خدیجہ مستور کی لکھی ہوئی مشہور ناول ہے جس میں انہوں نے تقسیم ہند سے پہلے اور برصغیر کی تقسیم کے دوران ہونے والے سیاسی، معاشی، معاشرتی، اور اقتصادی بحران اور ان مسائل کو پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس ناول میں گھریلو زندگی کی عکاسی اس انداز سے کی گئی ہے کہ اگرچہ بظاہر یہ ایک آنگن کی کہانی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ کہانی آنگن کی نہیں بلکہ ایک گھر کی کہانی ہے۔ ناول کا پلاٹ اتنا سادہ ہے کہ مصنفہ نے کہیں بھی غیر ضروری واقعات کو پیش نہیں کیا ہے۔ خدیجہ مستور نے اپنے اس ناول میں زیریں طبقے سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے مسائل کو انہی کی زبان و بیان میں بیان کرکے پیش کیا ہے۔ مختصراً، ناول آنگن خدیجہ مستور کی مشہور ناولوں میں شمار ہوتا ہے۔
ناول آنگن کا فنی تجزیہ
- پلاٹ
- کردارنگاری
- مکالمہ نگاری
- زبان و بیان
- منظرنگاری
پلاٹ
ناول کی عمدگی کا انحصار پلاٹ پر ہی ممکن ہے۔ پلاٹ گٹھا ہوا ہونا چاہیے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ناول نگار قصے کو کس نظریے سے دیکھ رہا ہے۔ پلاٹ میں کہیں کہیں حیرانی، خوشی و غمی آتی جاتی ہے اور کسی کسی جگہ پہ ایسی ایسی باتوں کو چھوڑ دیا جاتا ہے جو کہ اسی جگہ بیان کرنا ضروری نہیں ہوتیں۔ اس ناول میں بھی خدیجہ نے اس چیز کا بہت خیال رکھا ہے۔ بہت سی باتیں بیان کرنے کی بجائے چھوڑ دی جاتی ہیں۔ کچھ ایسے کردار بات کرتے کرتے خاموش ہو جاتے ہیں ایسی جگہ جہاں انہیں خاموش نہیں ہونا چاہیے بلکہ اپنی بات کو مکمل کرنا چاہیے۔
ہاں یہ بھی ٹھیک ہے کہ بعض اوقات ایسا ہونا چاہیے مگر اس ناول میں ایسا کچھ زیادہ نہیں ملتا۔ اس ناول کے پلاٹ میں عالیہ، چھمی، جمیل بھیا، شکیل، عزیز چچا سب اپنے اپنے مقصد کو حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ جس کے لیے انہیں بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ان میں سے زیادہ تر ناکام ہی ہو جاتے ہیں اور بہت سے کردار تو اپنی زندگی بھی گنوا بیٹھتے ہیں۔
کردار نگاری
کوئی بھی کہانی کرداروں کے بغیر وجود میں نہیں آسکتی۔ ناول معاشرے کی عکاسی کرتا ہے، اس لیے اس میں ہر طرح کے کرداروں کی موجودگی لازمی ہے۔
ناول آنگن کے کرداروں کو بھی ہم دو ہی حصوں میں تقسیم کرتے ہیں۔ ایک ضمنی کردار اور دوسرے مرکزی کردار۔ اس ناول کے مرکزی کرداروں میں سب سے پہلے ہماری نظر عالیہ کے کردار پر پڑتی ہے۔ اس کے بعد اس کی اماں، عزیز چچا، جمیل بھیا، چھمی اور عزیز چچی وغیرہ، یہ ناول کے اہم کردار ہیں۔ اس کے بعد اور بھی بہت سے کردار ہیں جو اس ناول کی خوبصورتی کا حصہ بنتے ہیں اور اس ناول کو اپنی منزل کی طرف بڑھنے میں اس کی مدد کرتے ہیں۔ ان میں عالیہ کے ابو، صفدر بھائی، کسم دی دی، تہمینہ، اسرار میاں، سلمی، نجمہ، شکیل، اور ایک ڈاکٹر وغیرہ شامل ہیں۔ یہ ایسے کردار ہیں جو اس ناول کی رہنمائی کرتے ہوئے اسے اپنی منزل کی طرف لے جاتے ہیں۔
مکالمہ نگاری
ناولوں کے کرداروں کے درمیان اہمیت کی حامل گفتگو کو مکالمہ کہتے ہیں۔ مکالمہ کسی بھی کردار کی کردار نگاری کا بہترین وسیلہ ہے، یہ ناول کو آگے بڑھانے میں بھی مددگار ثابت ہوتا ہے۔ مکالمے جتنے جاندار اور فطری ہوں گے، ناول اتنا ہی عمدہ ہو گا۔ اس ناول میں خدیجہ نے مکالمہ نگاری کو بھی بخوبی اپنایا ہے۔ انہوں نے کرداروں کی آپس میں گفتگو کا دھیان رکھتے ہوئے بیان کیا ہے جیسے عالیہ کی اماں اس کی دادی اماں سے مخاطب ہو کر کسم دی دی کے بھاگنے کی اطلاع دیتے ہوئے کہتی ہے کہ:
ماما: اماں، کسم دی دی تو بھاگ گئی۔
اماں: ارے، کیا سچ مچ بھاگ گئی؟
ماما: کیسے عزت والے لوگ تھے، ہائے رے رائے صاحب کی تو ناک ہی کٹ گئی۔
اماں: مجھے پتا ہوتا تو میں تو اسے عالیہ کے پاس ایک منٹ بھی نہ بیٹھنے دیتی۔
عالیہ: میرے پاس بیٹھنے سے کیا ہوتا ہے؟
زبان و بیان
کسی بھی ناول کی تشکیل اور اس کی کامیابی میں اس ناول کی زبان و بیان، اسلوب اور انداز تحریر انتہائی اہمیت رکھتے ہیں۔ اس کی کامیابی کا انحصار اسی بات پر ہے کہ ناول میں موجود کرداروں کی زبان اس کردار کے مطابق ہی ہے یا نہیں۔ اس کے ساتھ ہی تشبیہات و تمثیلات کا بیان، ان کا استعمال، جملوں کی ساخت اور کرداروں کی گفتگو بھی اس کے مطابق ہونی چاہیے۔ کسی کردار کی زبان سے نکلا ہوا جملہ اس کے کردار کے مطابق ہونا چاہیے۔
خدیجہ مستور نے اس ناول میں زبان و بیان کا خاص خیال رکھا ہے۔ اس ناول میں انہوں نے بہت سادہ اور آسان زبان استعمال کی ہے۔ جس کردار کو جو کہنے کو کہا، اس سے ویسے ہی الفاظ اور جملے کہلوائے گئے۔ مثال کے طور پر چھمی، جو کہ ایک تیکھا کردار ہے، اس سے تیکھے الفاظ کہلوائے گئے ہیں جو کسی کو لاجواب اور شرمندہ کر دیتے ہیں۔ چھمی، جو کہ مسلم لیگ کی رکن ہے، بچوں کو اکٹھا کرکے ان سے ویسے ہی جملے اور باتیں کرواتی ہے۔ اسی طرح عالیہ، عزیز چچا اور جمیل بھیا کے کردار بھی ویسی ہی زبان استعمال کرتے ہیں جیسا انہیں کرنے کو کہا گیا ہے۔
منظر نگاری
داستان کی طرح اس ناول میں بھی منظر نگاری کا بہت اہم کردار ہے۔ اچھا ناول نگار ناول میں موجود منظر کو اچھی طرح سے پیش کرتا ہے تاکہ قاری کے ذہن میں اس کی مکمل تصویر چھپ سکے۔ مناظر سے کہانی میں دلچسپی اور لطف پیدا ہوتا ہے۔ اس ناول میں خدیجہ مستور نے جو منظر پیش کیے ہیں، انہوں نے وہ منظر اس طرح پیش کیے ہیں کہ ایسے لگتا ہے کہ جیسے وہ واقعہ حقیقت ہو۔ جیسے کہ اس ناول کے شروع میں خدیجہ مستور سردیوں کی ایک رات کو بیان کرتے ہوئے لکھتی ہیں کہ:
“سردیوں کی رات جلد ہی کتنی سنسان ہو جاتی ہے آج بھی امش ہی سے ادھر ن چھا گئے، خنکی زہ ہو گئی تھی، کھڑکیوں کے اس ن لگے ہوئے بجلی کے کھمبے کا بلب خاموشی سے جل رہا تھا۔ سکول کے اس ن بنی عمارت کے درختوں کے جھنڈ سے الو کے بولنے کی آواز آ رہی تھی۔”
اور پھر تہمینہ کی موت کی تصویر کشی کرتے ہوئے، جب وہ مرنے سے پہلے عالیہ سے کہتی ہے کہ:
“عالیہ! جب تم صفدر سے ملو تو میرے جانے کے بعد اسے میرا کوئی پیغام دینا، اسے کہنا کہ میں اسے کبھی بھی نہیں بھولی تھی بس۔”
اور پھر وہ سو جاتی ہے۔
“کاش بندہ ناول پڑھتے پڑھتے یہ لائنیں پڑھتا ہے تو وہ سمجھتا ہے جیسے وہ اس سے ہی بات کر رہا ہے جیسے وہ اس کی باتیں سن رہا ہو۔ وہ ان کے سامنے بیٹھا ہو، یہ باتیں پڑھتے ہی قاری کی آنکھوں میں آنسو آ جاتے ہیں۔”
Click Here For PDF