اردو زبان کی تشکیل کے 10 نظریات
اردو زبان کی تشکیل کے 10 نظریات: اردو زبان کی ابتدا، تاریخ ارتقا کے بارے میں مختلف ماہرین لسانیات کے مختلف نقطہ نظر ملتے ہیں۔ ان نقطہ نظر میں زیادہ تر بات مشترک ہے کہ برصغیر میں اردو زبان کی ابتدا مسلمان فاتحین کی آمد سے ہوئی۔ اردو زبان کی ابتدا و ارتقا کے بارے میں ماہرین لسانیات کے نقطہ نظر مندرجہ ذیل ہیں:
- محمد حسین آزاد
- ڈاکٹر رام بابو سکسیہ
- سید سلیمان ندوی
- ڈاکٹر شوکت سبزواری
- ڈاکٹر سہیل بخاری
- میر امن دہلوی
- سر سید احمد خان
- ڈاکٹر جمیل جالبی
- ڈاکٹر سید عبداللہ
- حکیم شمس اللہ قادری
محمد حسین آزاد
اردو کی ابتدا کے بارے میں محمد حسین آزاد کا نظریہ یہ ہے جو انہوں نے “آب حیات” میں پیش کیا:
“اتنی بات ہر شخص جانتا ہے کہ ہماری یہ اردو زبان برج بھاشا سے نکلی ہے اور برج بھاشا خاص ہندوستانی زبان ہے لیکن وہ ایسی زبان نہیں جو دنیا کے پردے پر ہندوستان آئی ہو۔ اس کی عمر آٹھ سو برس سے زیادہ زبان نہیں ہے اور برج بھاشا کا سبزہ زار اس کا وطن ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اسے فقط شاہ جہاں کا اقبال کہنا چاہیے کہ یہ زبان برج خاص عام میں اس کے عہد میں اردو کی طرف منسوب و مشغول ہوگئی۔”
(آب حیات، صفحہ 10)
عبدالغفار اخن نے محمد حسین آزاد کے نظریے کی توثیق کرتے ہوئے لکھا:
“جب شاہ جہاں دہلی میں آباد ہوا تو اطراف و جوانب سے عالم میں طرح طرح کے ذی علم، صاحب استطاعت اور قابل لوگ جمع ہوئے۔ قدیم ہندی متحرک ہونے لگی۔ محاورے میں رقت ہونے لگا۔ زبان اردو کی ترقی شروع ہوئی۔”
(زبان اور اردو زبان، معلم: ڈاکٹر رمان ق فتح پوری، صفحہ 40)
تحقیق کے اعتبار سے محمد حسین آزاد کا نظریہ کمزور بنیادوں پر استوار ہے کیونکہ پروفیسر محمود شیرانی کے دلائل اردو وضع قطع کے اعتبار سے بالکل مختلف ہیں۔
ڈاکٹر رام بابو سکسیہ
اردو کی ابتدا کے بارے میں رام بابو سکسیہ لکھتے ہیں:
“اردو زبان اس ہندی ادب بھاشا کی ایک ذیلی شکل ہے جو دہلی اور میرٹھ کے اطراف میں بولی جاتی تھی اور جس کا تعلق شورسینی پراکرت سے بلا واسطہ تھا۔”
(ہسٹری آف اردو لٹریچر، رام بابو سکسیہ)
سید سلیمان ندوی
سید سلیمان ندوی اپنی کتاب نقوش سلیمانی میں لکھتے ہیں کہ اردو کی ابتداء سر زمین سندھ سے ہوئی۔ ندوی کے نظریے کی تائید میں درج ذیل دلائل ہیں:
- تاریخی اور لسانی اعتبار سے مسلمانوں اور ہندوؤں کی زبان کا میل جول سب سے پہلے سندھ میں ہوا۔
- اردو کی طرح سندھی میں بھی عربی، فارسی وغیرہ کے الفاظ کثرت سے پائے جاتے ہیں۔
- سندھی کا رسم الخط آج بھی ٹھیٹھ عربی میں ہی ہے۔
درجہ بالا دلائل کے بعد ندوی اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ جس زبان کو آج ہم اردو کہتے ہیں، اس کا ہیولیٰ وادی سندھ میں تیار ہوا ہوگا۔ لیکن ڈاکٹر محی الدین زور نے ہندوستانی لسانیات میں ندوی کے اس نظریے کو غلط قرار دیا ہے اور کہا:
“وہ اردو نہ تھی بلکہ اس زبان کی قدیم شکل تھی جو آج سندھی کہلاتی ہے۔”
میر امن دہلوی
میر امن دہلوی نے اپنی کتاب “باغ و بہار” کے دیباچے (1802\1803) میں لکھا:
“جب شاہ اکبر بادشاہ تخت پر بیٹھے، تو دنیا کے چاروں طرف کے ملکوں سے دس قومیں قدردانی اور فیض رسانی اس خاندان لسانی کی سن کر حضور میں آ کر جمع ہوئیں۔ لیکن ہر ایک کی بولیاں اور زبان آپس میں جدا جدا تھیں۔ اکٹھے ہونے پر آپس میں لین دین، سودا سلف، سوال و جواب کرتے اور ایک زبان اردو رائج ہوئی۔”
(باغ و بہار، صفحہ 3)
سر سید احمد خان
سر سید احمد خان نے اپنی کتاب “آثار الصنادید” میں لکھا:
“اردو کا خمیر خلجی دور میں اٹھنا شروع ہوا، مگر اس نے زبان کی صورت شاہجہاں کے دور میں تیار کی۔”
حافظ محمود شیرانی
حافظ محمود شیرانی نے سر سید احمد خان کے اقتباس کو اپنی کتاب “پنجاب میں اردو” میں یوں نقل کیا:
“جب شہاب الدین شاہجہاں بادشاہ ہوا اور اس نے انتظام سلطنت کیا تو دس ملکوں کے وکلاء کو حاضر رہنے کا حکم دیا۔ دلی کو نئے سرے سے آباد کیا اور قلعہ بنوا کر اسے شاہجہاں آباد کا نام دیا۔ اس وقت شہر میں تمام ملکوں کے لوگوں کا مجمع ہوا۔ ہر ایک کی گفتار اور رفتار جدا تھی۔ ہر ایک کا رنگ ڈھنگ نرالا تھا۔ وہ آپس میں معاملہ کرتے، چار الفاظ اپنی زبان کے، دو الفاظ کسی اور زبان کے ملا کر بولتے، سودا سلف لیتے اور رفتہ رفتہ اس ترکیب سے ایک نئی زبان بن گئی۔”
(پنجاب میں اردو، صفحہ 41)
میر عنایت اللہ خان
میر عنایت اللہ خان عنایت نے بھی اپنی کتاب “حیاء درب سلطنت” میں سر سید احمد خان کے نظریے کی تائید کی اور اردو زبان کے ارتقاء کو شاہجہاں کے عہد سے منسوب کیا
ڈاکٹر جمیل جالبی
ڈاکٹر جمیل جالبی نے اپنی کتاب “تاریخِ ادبِ اردو” میں اردو زبان کی ابتدا اور ارتقاء کے حوالے سے یوں لکھا:
“مسلمانوں کے ساتھ یہ زبان جہاں جہاں پہنچی، وہاں علاقائی لہجوں کو جذب کرکے اپنی شکل بناتی رہی۔ اس کا ہیولیٰ سندھ اور ملتان میں تیار ہوا۔ پھر یہ لسانی عمل سرحد اور پنجاب میں ہوا، جہاں سے تقریباً دو صدیوں بعد یہ دہلی، پنجاب اور وہاں کی زبان کو جذب کرکے اور ان میں کچھ تبدیلیاں کرکے سارے برصغیر میں پھیل گئی۔”
ڈاکٹر سید عبداللہ
ڈاکٹر سید عبداللہ نے اردو زبان کی ابتدا کے حوالے سے لکھا:
“اردو کا پہلا خمیر پنجاب میں تیار ہوا اور کھڑی بولی اور برج بھاشا والے نظریے سے کوئی تصادم نہیں، نہ دکن میں اردو اور نہ گجرات میں اردو کے آغاز کے نظریے سے کوئی ٹکراؤ نہیں۔”
حکیم شمس اللہ قادری
حکیم شمس اللہ قادری نے اپنی کتاب “اردو قدیم” میں اردو زبان کے ارتقاء کے بارے میں یوں کہا:
“مسلمانوں کے رابطے سے برج بھاشا میں عربی اور فارسی کے الفاظ داخل ہونے لگے، جس کے نتیجے میں اس میں تغیر پیدا ہوا اور روز بروز بڑھتا چلا گیا اور ایک طویل عرصے کے بعد اردو کی صورت اختیار کر گیا۔”
ڈاکٹر موہن سنگھ
ڈاکٹر موہن سنگھ ادیواب کا نظریہ ہے کہ:
“ہندی اور فارسی کی آمیزش سے اردو زبان محمود غزنوی کے دور میں پیدا ہوئی۔”
نوٹ: موہن سنگھ کے نظریے کی تائید کرتے ہوئے سجاد ظہیر نے بھی اردو کی ابتدا کو غزنوی کے عہد سے وابستہ کیا ہے۔
ڈاکٹر انور سدی
ڈاکٹر انور سدی نے اپنی کتاب “اردو ادب کی مختصر تاریخ” میں لکھا:
“یہ زبان اردو تھی، جس کی خام صورت سندھ اور پنجاب میں دم توڑ رہی تھی۔ شاہجہان آباد میں یہ زبان پروان چڑھی۔ دکن میں اس کا ادب پیدا ہوا اور پھر اس نے شمال کی طرف رخ کیا کہ یہاں کلاسیکی انداز میں 1947 تک اس کی آرائش و زیبائش کی گئی۔ جب نئی سیاسی حدبندیاں عمل میں آئیں تو یہ زبان اپنے حقیقی وطن، پنجاب اور سندھ، میں واپس آ گئی۔”
For PDF Click Here
See More Notes Here
Post Views: 15